یکم اکتوبر کو ایران نے اسرائیل پر بیلسٹک میزائلوں کی بھرمار کردی۔ یہ کارروائی اسرائیل کے لبنان میں حزب اللہ اور غزہ میں حماس کے خلاف فوجی حملوں کے جواب میں کی گئی، جسے ایران نے اپنے دفاع کے طور پر پیش کیا۔ ایران کے اس حملے نے مغرب میں ایک بار پھر بے چینی پھیلادی، کیونکہ ایرانی میزائلوں کا ذخیرہ عرصے سے عالمی برادری کے لیے تشویش کا باعث رہا ہے۔ یہ حملہ اپریل میں ایران کے اسرائیل پر پہلے براہ راست حملے کے پانچ ماہ بعد سامنے آیا۔
بیلسٹک میزائل: ایران کے اہم ترین ہتھیار
بیلسٹک میزائل ایرانی ہتھیاروں میں اہم حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ میزائل راکٹ سے چلائے جاتے ہیں اور ان کی پرواز کا زیادہ حصہ کشش ثقل کے تحت آزادانہ ہوتا ہے۔ ان میزائلوں کو مخصوص اہداف کی طرف ابتدائی سمت دی جاتی ہے، لیکن یہ ہتھیار اپنی پرواز کے دوران زیادہ تر خودمختار طریقے سے حرکت کرتے ہیں۔
ایران کے بیلسٹک میزائل صرف روایتی ہتھیار نہیں ہیں، بلکہ یہ حیاتیاتی، کیمیائی اور ایٹمی ہتھیار بھی لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان کی مار کی حد مختلف ہوتی ہے اور یہ مختصر سے لے کر بین البراعظمی فاصلے تک پہنچ سکتے ہیں، جس کی وجہ سے یہ اسٹریٹیجک اہمیت رکھتے ہیں۔
ایران کے پاس اسرائیل تک مار کرنے والے میزائل
ایرانی خبر رساں ادارے اسنا کے مطابق، ایران کے پاس اسرائیل تک مار کرنے والے 9 اقسام کے بیلسٹک میزائل ہیں۔ ان میزائلوں کی رفتار 6,125 کلومیٹر فی گھنٹہ سے 17,151 کلومیٹر فی گھنٹہ تک ہوتی ہے۔ یہ میزائل مختلف ناموں سے جانے جاتے ہیں اور ہر ایک کی منفرد خصوصیات ہیں۔
ایران کے ان میزائلوں میں سیجل (Sejjil)، خیبر (Kheibar)، عماد (Emad)، شہاب-3 (Shahab-3)، غدر (Ghadr)، پایہ (Paveh)، فتح-2 (Fattah-2)، خیبر شیکان (Kheibar Shekan)، اور حج قاسم (Haj Qasem) شامل ہیں۔ ان میزائلوں کی تنوع اور طاقت نے ایران کو ایک طاقتور میزائل پروگرام کی حیثیت دی ہے، جو خطے میں کسی بھی ممکنہ خطرے کے خلاف ایک بڑا دفاعی نظام فراہم کرتا ہے۔
یہ ایرانی میزائل خطے میں عدم استحکام کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر تنازعات کا سبب بنتے ہیں اور یہ میزائل پروگرام مغربی ممالک اور اسرائیل کے لیے مستقل طور پر خطرے کی گھنٹی ہے۔