اسلام آباد ہائی کورٹ کا حکم
اسلام آباد ہائی کورٹ نے اسٹیٹ کونسل کو ایک ہفتے میں رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت دی ہے، جس میں یہ وضاحت کی جائے گی کہ پارلیمنٹ کے اندر پولیس کیسے گئی۔ عدالت نے یہ فیصلہ اس وقت کیا جب قومی اسمبلی کے رکن زین قریشی کی 10 ستمبر کو پارلیمنٹ کے اندر سے گرفتاری کے خلاف کیس کی سماعت ہوئی۔
عدالت میں پیش کی جانے والی رپورٹوں کے باوجود قومی اسمبلی سیکرٹریٹ، پولیس، اور انتظامیہ کی طرف سے کوئی تفصیلات فراہم نہیں کی گئی۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے اس صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا اور پوچھا کہ کس وجہ سے نوٹس بھیجنے کے باوجود جواب نہیں آیا۔
قومی اسمبلی کی حدود میں گرفتاری کے قواعد
چیف جسٹس نے مزید وضاحت کی کہ پارلیمنٹ کے اندر سے گرفتاری غیر قانونی ہے، اور اس کی وضاحت کی ضرورت ہے۔ وکیل نے عدالت میں دلائل دیے کہ قومی اسمبلی کے قواعد و ضوابط کے تحت کسی کو بھی اسپیکر کی اجازت کے بغیر پارلیمنٹ کے اندر سے گرفتار نہیں کیا جا سکتا۔
عدالت نے اسٹیٹ کونسل کو ہدایت کی کہ وہ قومی اسمبلی کے قواعد کا جائزہ لیں اور ایک ہفتے میں مکمل رپورٹ جمع کروائیں۔
سماعت کی تاریخ اور آئندہ کے اقدامات
عدالت نے کیس کی سماعت 16 اکتوبر تک ملتوی کر دی۔ چیف جسٹس نے یہ واضح کیا کہ اس معاملے کی اہمیت کے پیش نظر آئی جی اور چیف کمشنر کو یہ وضاحت فراہم کرنی ہوگی کہ پولیس پارلیمنٹ کے اندر کیسے داخل ہوئی۔ عدالت نے اس بات پر بھی زور دیا کہ پارلیمنٹ کے استحقاق اور قواعد و ضوابط کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے۔
یہ معاملہ آئندہ سماعت کے دوران مزید زیر غور آئے گا، اور اس سے یہ بات واضح ہوگی کہ آیا کسی نے پارلیمنٹ کے اندر کی حیثیت کا احترام کیا یا نہیں۔