جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے واضح کیا ہے کہ موجودہ پارلیمنٹ کے پاس آئین میں ترامیم کرنے کا کوئی قانونی یا اخلاقی مینڈیٹ نہیں ہے۔ ان کے مطابق، ایسی ترامیم کا منظور ہونا جنہیں جعلی پارلیمنٹ منظور کرائے، ناانصافی کے مترادف ہوگا۔
حکومت کا سیاسی مقاصد کے لیے ترامیم کی طرف رجحان
پشاور میں منعقدہ ایک پریس کانفرنس میں مولانا فضل الرحمان نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت سیاسی مقاصد کے لیے آئینی ترامیم کا سہارا لے رہی ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ یہ اقدام قومی مفادات کے بجائے سیاسی مفاد کو مدنظر رکھ کر کیا جا رہا ہے۔ مزید برآں، انہوں نے اس امر کی نشاندہی کی کہ اب دیکھنا یہ ہے کہ پیپلز پارٹی آئینی مسودہ کیسے پیش کرتی ہے اور اس میں کیا تبدیلیاں لاتی ہے۔
عدالتی اصلاحات اور اتفاق رائے کی اہمیت
مولانا فضل الرحمان نے اس بات پر زور دیا کہ اسمبلیاں چھوڑ کر عوامی احتجاج کا راستہ اختیار کرنا زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر اصلاحات لانی ہیں تو یہ افراد کے بجائے عدلیہ سے متعلق ہونی چاہئیں اور ایسی اصلاحات لائی جائیں جن پر سیاسی اتفاق رائے ہو۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ آئینی ترامیم کو سیاسی انتشار کا ذریعہ نہیں بننا چاہیے، بلکہ ملک کی بہتری کے لیے ان میں مکمل ہم آہنگی ہونی چاہیے۔
آئینی عدالت کا قیام اور پارلیمنٹ کی خود مختاری
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ انہوں نے حکومت کی جانب سے پیش کردہ آئینی مسودہ مسترد کردیا کیونکہ وہ اس میں موجود تجاویز کو ناقابل قبول سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ آئینی عدالت کے قیام کی حمایت کرتے ہیں، جیسا کہ میثاق جمہوریت میں طے ہوا تھا، لیکن اس پارلیمنٹ کو دھاندلی کے ذریعے مینڈیٹ چرانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پارلیمنٹ کی خود مختاری کو کسی صورت سمجھوتے کا شکار نہیں ہونا چاہیے اور موجودہ پارلیمنٹ کو آئینی ترامیم کرنے کا مینڈیٹ نہیں دیا جاسکتا۔
آئینی ترامیم کے حوالے سے مولانا کا مؤقف
مولانا فضل الرحمان نے اس بات کی نشاندہی کی کہ موجودہ حکومت کی ترامیم ایک جعلی مینڈیٹ کی بنیاد پر لائی جارہی ہیں اور ایسی ترامیم ملک کی آئینی بنیادوں کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ دھاندلی زدہ انتخابات کے ذریعے حاصل کیے گئے مینڈیٹ سے اتنی بڑی ترامیم کرانا قوم کے ساتھ زیادتی ہوگی۔ مولانا نے کہا کہ جے یو آئی (ف) ملک میں آئین کی بالادستی کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھے گی اور اس پارلیمنٹ کو آئینی ترامیم کا حق نہیں دے گی۔