سپریم کورٹ کے جج جسٹس یحییٰ آفریدی نے مخصوص نشستوں کے کیس میں اپنا اختلافی نوٹ جاری کیا ہے۔ 26 صفحات پر مشتمل اس نوٹ میں انہوں نے سنی اتحاد کونسل کی درخواستوں کو آئینی تقاضوں کے مطابق نہ ہونے کی بنیاد پر مسترد کر دیا۔ اختلافی نوٹ کے مطابق سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کے حصول کی اہل نہیں، جبکہ تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت کے طور پر ان نشستوں کے لیے اہل ہے۔
سنی اتحاد کونسل کی اہلیت پر اعتراض
جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنے اختلافی نوٹ میں واضح کیا کہ سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کے لیے آئین کی شرائط پوری نہیں کرتی۔ انہوں نے قرار دیا کہ الیکشن کمیشن کو فریقین کی سماعت کے بعد سات دن کے اندر اس معاملے پر فیصلہ کرنا چاہیے۔
پی ٹی آئی کی اہلیت اور درخواست کی تفصیلات
جسٹس آفریدی نے لکھا کہ تحریکِ انصاف نے اس معاملے میں 26 جون کو فریق بننے کی درخواست دی، جبکہ کیس کا آغاز 3 جون سے ہو چکا تھا۔ اس حوالے سے پی ٹی آئی نے عدالت سے اپنے حق میں کسی ڈکلیئریشن کی استدعا نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو مخصوص نشستوں کے نوٹیفکیشن کا دوبارہ جائزہ لینا چاہیے۔
جسٹس امین اور جسٹس نعیم کے فیصلے پر رائے
اختلافی نوٹ میں جسٹس یحییٰ آفریدی نے جسٹس امین اور جسٹس نعیم کے لکھے ہوئے فیصلے پر بھی تحفظات کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جو کچھ انہوں نے لکھا ہے، وہ ان کی شخصیت کو زیب نہیں دیتا۔
کیس میں بیرسٹر گوہر کی معاونت
جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنے اختلافی نوٹ میں بیرسٹر گوہر کی کیس میں معاونت کی درخواست کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ تحریک انصاف نے کیس کے دوران اپنے حق میں کسی ڈکلیئریشن کی درخواست نہیں کی تھی۔
الیکشن کمیشن کے نوٹیفکیشن پر نظرثانی کی ضرورت
اختلافی نوٹ میں یہ تجویز دی گئی کہ الیکشن کمیشن کو مخصوص نشستوں کے نوٹیفکیشن کا دوبارہ جائزہ لینا چاہیے اور تمام فریقین کو سن کر منصفانہ فیصلہ دینا چاہیے۔
یہ اختلافی نوٹ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کے لیے آئینی تقاضے پورے نہیں کرتی جبکہ پی ٹی آئی کو اہل قرار دیا گیا ہے۔ اس معاملے پر حتمی فیصلہ الیکشن کمیشن کو کرنا ہوگا۔